Type Here to Get Search Results !

عظمت والدین قرآن اور حدیث کی روشنی میں

اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔(١)
والدین کا لفظ سنتے ہی ایک انتہائی شفیق، بے غرض اور دل و جان سے محبت کرنے والی ہستیوں کا نقش ابھرنے لگتا ہے۔ ہر رشتے کا کوئی نہ کوئی نعم البدل مل جاتا ہے، لیکن یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کا بدل ﷲ تعالیٰ نے بنایا ہی نہیں۔ جب کسی کے والدین دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو اس
کے لیے ایک سرچشمہ دعا بند ہوجاتا ہے۔ ماں-باپ کے لفظ میں اتنی کشش ہے کہ انسان بچہ، جوان ہو یا بوڑھا، اپنے والدین کے تصور میں گم ہو جاتا ہے اور ان کی شفقت، احسانات آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
بچپن سے لے کر ان کی وفات تک ہر ایک لمحہ کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے رواں ہوجاتا ہے کہ کس طرح والدین اپنے شب و روز کا ہر ایک لمحہ اپنے بچوں کے آرام و راحت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ رات کا آرام اور دن کا چین اس پر قربان کر دیتے ہیں ۔ ہر وقت ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی اولاد کی صحت و تن درستی، خوش حالی، ترقی و کام رانی اور آفات سے بچنے کے لیے دست بہ دعا رہتے ہیں ۔ جب ماں، اولاد کے لیے دعا کرتی ہے تو اس کے اور ﷲ کے درمیان سارے پردے ہٹا دیے جاتے ہیں اور وہ سیدھی عرش پر پہنچتی ہے۔
ہر معاشرے اور مذہب میں والدین کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ماں کا جواب نہیں اور باپ کا نعم البدل نہیں۔ اللہ سبحان تعالیٰ نے انسان کو ان دو نعمتوں سے نواز کر بندے کو ایثار اور قربانی کا مفہوم سمجھا دیا۔ یہ وہ رشتے ہیں جو آخرت میں بھی ساتھ ہوں گے۔ روزِ قیامت انسان انہی رشتوں سے پکارا جائے گا۔ ماں باپ کے چہروں کو دیکھنا زیارت کعبہ کے مترادف ہے۔
قرآن میں مختلف مقامات پر والدین کا ذکر آیا ہے خصوصا چار جگہوں پر توحید کے ہمراہ والدین کے ساتھ احسان اورنیکی کرنے کا حکم بیان ہوا ہے عظمت والدین کے لئے یہی کافی ہے کہ پروردگا ر عالم نے اپنی توحید کے ساتھ والدین کا ذکر کیا ہے:
اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ ، قرابتدارو، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا لوگوں سے اچھی باتین کرنا نماز قائم کرنا اور زکات ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہو”[٢]
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔۔۔‘‘[٣]۔
۔’’کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے ، خبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔۔‘‘[٤]۔
۔۔’’اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔۔۔‘‘[٥]
کسی ناگوار بات میں انسان کا سب سے معمولی ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس کی زبان سے اف نکل جاتا ہے اور اف وہ آواز ہے جو کسی معمولی افسوس کے لمحات میں انسان کی زبان پر آجاتی ہے خدا وندام کو اتنا معمولی اظہار شکوہ بھی والدین کے بارے میں برداشت نہیں ہے اس لئے اس نے مومنین کو اف تک کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :……… “خبردار ان سے اف نھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں”[٦]
ان آیات میں والدین کیساتھ احسان ونیکی کرنا بطور مطلق ذکر ہوا ہے یعنی والدین مسلمان ہوں یا نہ ہوں ان کے ساتھ ہر حال میں احسان کرنا ہے جس طرح عبادات کو انجام دینے سے حق عبودیت ادا نہیں ہو سکتا اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنے سے ان کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔جس طرح یہ ملتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوا اورحج پرگیا وہاں اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کی اور امام سے اپنی نصرانی ماں کے متعلق سوال کیا مولا میں مسلمان ہوگیا ہوں لیکن میری ماں نصرانی ہے کیا میں اس کے ساتھ کھانا کھا سکتا ہوں ؟امام نے جواب میں فرمایا :کیاوہ خنزیر کا گوشت کھاتی ہے اس نے کہا :نہیں مولا :امام نے فرمایا :تم اس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہو اور دیکھو تم اپنی ماں کا زیادہ احترام کرو اور ماں کے ساتھ نیکی اور احسان کرو، جب یہ نصرانی حج سے واپس گھر پلٹا تو ماں کے ساتھ کافی احسان ونیکی کی اورکافی احترام کیا اس کی ماں نے اس کا جب یہ احترام اور احسان دیکھا تو کہا: بیٹا تمہیں کیا ہو گیا اس بار سفر سے واپسی پر تمہارے اخلاق اور رفتار میں کافی تبدیلی آگئی ہے جب تم ہمارے مذہب پر تھے تو میرا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے لیکن اب جب کہ تم ہمارے مذہب پر نہیں ہو میرے ساتھ کافی احسان ونیکی کررہے ہو اس نے کہا :ماں حج پر میں نے اپنے امام سے ملاقات کی میرے امام نے مجھے آپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے بیٹے کے اس عمل کی وجہ سے نصرانی ماں بھی مسلمان ہو گئی ۔[٧]
انسان کے اخلاق اور والدین کے ساتھ احسان ونیکی کرنے کی وجہ سے ایک نصرانی عورت مسلمان ہو گئی اس واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ احسان ونیکی کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ والدین اگرچہ مسلمان نہ بھی ہوں پھر بھی ان کے ساتھ احسان ونیکی کرنا چاہیے۔ والدین کا احترام انسانی حقوق میں سے ہے نہ کہ اسلامی حقوق میں سے دائمی حقوق میں سے ہے نہ کہ موسمی و وقتی حقوق میں سے-
زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑمیں ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے والدین کوکہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری طرح ہمارے والدین کی عمر بھی بڑھ رہی ہے ۔ وہ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں ۔ جو کل ہمارا سہارا بنتے تھے آج انہیں لاٹھی کی ضرورت ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ رب العزت کی جانب سے دیا گیا ایک زبردست موقع ہے جب ہم والدین کی عظیم محبت ، تعاون اور دیکھ بھال کاشکریہ ادا کرسکتے ہیں ، چونکہ اس بے لوث احسان کا بدلہ اتارنا تو ہمارے بس کی بات نہیں ۔ اس مقصد کو پورا کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے والدین کا خیال رکھنا اور انہیں سمجھنا ہیں –
تو کیا ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اب ہمیں اپنے والدین کو سمجھنے کی ضرورت ہے؟ فیصلے لیتے ہوئے نہ صرف اپنی اور اپنے بچوں کی بلکہ اپنے والدین کی بھلائی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ؟
یہ حقیقت ہے کہ ہم جنھیں زندگی بھر اپنا سربراہ مانتے آئے ان کے بارے میں یہ سوچنا مشکل ہے کہ وہ اب ہماری محبت اور توجہ چاہتے ہیں ۔ جن پر ہماری دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری تھی اب ہمیں ان کی دیکھ بھال کرنی ہے ، لیکن اگر ہم والدین کو ہی اپنا رول ماڈل بنا لیں تو یہ ذمہ داری ہمیں ذمہ داری نہیں لگے گی ۔
ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہمارے والدین کے ساتھ ہمارا رشتہ کمزور ہونے لگے ہم یہ سوچیں کہ ایسے موقع پہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے یا وہ اس تعلق کو پھر سے کس طرح استوار کرتے ۔
اپنی زندگی کے دیگر امورمیں بھی ہم جب کبھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں تو کسی تجربہ کار شخص سے مشورہ لیتے ہیں ۔ دیکھ بھال کرنا یا خیال کرنا کیا ہوتا ہے یہ ماں باپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ جس طرح ہم نے باقی چیزیں ان سے سیکھیں ہیں ہمیں خیال رکھنا بھی اپنے والدین سے ہی سیکھنا چاہیے۔
اگر ہم یہ ذمہ داری پوری ایمانداری کے ساتھ نبھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف ہماری زندگی بلکہ آئندہ آنے والی دائمی زندگی بھی ہمارے اس عمل سے سنور سکتی ہے اور ہم اپنی اولاد کے سامنے بھی ایک اچھی مثال قائم کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اُن کے لیے باعث ِ تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔
خلاصہ کلام
ماں باپ کے حقوق کی فہرست بہت طویل ہے بلکہ ان کے مرتبہ ودرجہ کو دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اولاد اگر اپنی پوری زندگی بھی ان کے حقوق کی ادائیگی میں صرف کردے تب بھی ان کے تئیں اپنی ذمہ دار ی سے عہدہ برآنہیں ہوسکتا تاہم شریعت نے کچھ چیزیں ایسی بیان کردی ہیں ۔ جو زیادہ اہمیت کی ہیں اور جن کا لحاظ بہر صورت ہوناچاہیئے۔ مثلاََ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ان کی جائز خواہشات کی تکمیل اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری کو لازم جانے اور ان کی رضا وخوشنودی کو اپنے حق میں ایک بڑی سعادت سمجھی جائے، اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق ان کی ضروریات اور ان کے آرام وراحت میں اپنا مال واسباب خرچ کیا جائے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جو ان کی شان کے مطابق ہو۔ ان کے سامنے تواضع وانکساری اختیار کرے، ا ن کے سامنے ملائمت ونرمی اور خوشامدوعاجزی کا رویہ اپنائے اور جہاں تک ہوسکے ا ن کی خدمت کرے تاآنکہ وہ راضی اور خوش ہوں، ان کی اطاعت وفرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن اطاعت وفرمانبرداری ان ہی امور میں کی جانی چاہیئے جومباح ہوں ان کے ساتھ کوئی ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیئے، جس سے ان کی شان میں بے ادبی وگستاخی ظاہر ہوتی ہواور ان کے ساتھ تکبر وانانیت کے ساتھ پیش آناچاہیئے۔ خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں بات چیت کے وقت اپنی آواز کو ان کی آواز سے اونچی نہ کرنا چاہیئے۔ اور نہ ان کا نام لے کر یاد ومخاطب کرنا چاہیئے۔ کسی کام میں ان سے پہل نہ کرنا چاہیئے اور نہ ان کے مقابلے میں خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی طرح اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ اگر والدین غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں تو ان کے سامنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے فریضہ کی ادائیگی کے وقت بھی ادب واحترام اور نرمی وملائمت کی راہ اختیار کی جائے اور ایک دفعہ کہنے پر وہ باز نہ آئیں تو پھر سکوت اختیار کرلیا جائے اور انکے حق میں دعاء واستغفار کرتے رہناچاہیئے۔
ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصالِ ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔
حوالہ جات
[ ١]سورۃ الاسراء-٢٣
[٢] سورہ بقرہ/٨٣
[٣] سورہ نساء/٣٦
[٤] سورہ انعام/١٥١
[٥] سورہ اسراء/٢٣
[٦] ازدواج اسلامی آیةاللہ دستغیب
[>] سورہ اسراء /٢٣

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.