ہمارے ملک کی سماجی و سیاسی صورتحال دن بہ دن بد سے دتر ہو رہی ہے ہمیں عدل وانصاف پر مبنی حکومتوں اور اس کی تاریخ کا جائزہ لینا چاہئے تو جب ہم ایک ایسی حکومت کو تلاش کریں گے کہ جس کی حکومت میں بادشاہ اور عوام میں فرق محسوس کرنا دشوار ہو، جس کی حکومت میں اشرف المخلوقات سے لیکر آنکھوں سے نہ دکھنے والی اللہ کی مخلوق بھی اس بات کا دعوا نہیں کر سکتی کہ اس کا شکم پر نہیں ہے یا اس کے ساتھ عدل و انصاف نہیں ہوا.
ہماری مراد حکومت سازی کی تشکیل کے مرحلے پر پیغمبر اکرم کے بعد کامیاب ترین حکمران اور عدل و انصاف کی علامت امیرالمومنین حضرت علی ؓ کے فرامین کا تجزیہ کسی بھی حکمران کیلئے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے - پچیس برس تک رسول کے بعد علی بن ابی طالب نے خانہ نشینی میں بسر کی 35ھ میں مسلمانوں نے خلافتِ اسلامی کامنصب علی بن ابی طالب کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظور کیا کہ میں بالکل قران اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا، آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا اور جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں حضرت علی بن ابی طالب نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر و احد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی۔ ان جنگوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں۔ پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت و مزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہِ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے۔ جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے
جب ہم امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو امیر المومنینؑ کی ذات اور جسم سے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی فکر اور اصلاحات سے عدوات تھی جو کہ علی ابن ابی طالبؑ نے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کی تھیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ امیر المومنینؑ کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ‘ فکر اور نظریے کی شہادت ہے۔
آج ہم اگر عادلانہ نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے حضرت علیؑ کی عادلانہ حکومت کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ امامت کے لئے منصوب ہونے کے باوجود آپؑ نے حکمرانی عوام کے بے پناہ اصرار پر قبول فرمائی۔ عوام کا اصرار آپؑ کی بے پناہ عوامی مقبولیت اور عوامی اعتماد کی دلیل ہے اور یہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں الہی اور جمہوری عہدے کا حامل ہونے کی وجہ سے اپنا منفرد اور ممتاز مقام رکھتے تھے۔ لیکن عاجزی کا ایک انداز ان کے اپنے فرمان میں ہے کہ ’’میں امیر المومنینؑ کہلانے کا حق دار نہیں بن سکتا جب تک میں عوام کے دکھ درد میں برابر کا شریک نہ بن سکوں‘ یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے کوئی امتیازی رویہ نہیں اپنایا۔ علوی سیاست کا یہ امتیاز رہا ہے کہ امیر المومنینؑ نے حکومت کا حصول کبھی ہدف نہیں سمجھا بلکہ اپنے اصلی اور اعلی ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس حوالے سے آپ کا ایک معروف قول ہے کہ ’’میرے نزدیک حکومت ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم تر حیثیت رکھتی ہے مگر اس صورت میں جب اس کے ذریعے کسی حق کو قائم کرسکوں اور کسی باطل کا خاتمہ کرسکوں‘‘ ذاتی نوعیت کے مسائل پر گفتگو کے لئے بیت المال کے چراغ کو ہٹاکر حضرت کا اپنے گھر سے چراغ منگوانا حکمرانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے کہ ذاتی ضروریات پر قومی امانت کو صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ فرامین حکمرانوں کے لئے روشن مثالیں ہیں کہ وہ گڈ گورننس قائم کرتے وقت کس طرح اپنی ذات پر قوم کو ترجیح دیتے ہیں اور انصاف کا قیام کسی مصلحت کے بغیر کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت کی طرف سے مالک اشتر کو گڈگورننس کے حوالے سے ارسال کردہ ہدایات آج کے دور کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
آپؑ نے اپنی حکمرانی میں عدل کے قیام کی بھرپور کوشش کی اس کا ثبوت یہ ہے کہ قومی خزانے سے ہر شخص کو مساوی مواقع فراہم کرنے کا اصول سختی سے متعارف کرایا۔ لوٹی ہوئی قومی دولت کو ہر صورت میں واپس کرنے کے احتسابی عمل کی بنیاد رکھی۔ قومی خزانے اور بیت المال کو اس انداز میں صرف کیا کہ ہر شخص بلاامتیاز اس سے استفادہ کرسکے۔ انہوں نے کسی کو لوٹ مار کرنے اور بدعنوانی کی اجازت نہ دی اس سلسلہ میں آپ کا مشہور فرمان ہے کہ ’’اگر مجھے پتہ چل جائے کہ لوٹی ہوئی قومی دولت کئی ہاتھوں تک منتقل ہوچکی ہے تو اس کو تب بھی واپس قومی خزانے میں پلٹا دوں گا۔ امیر المومنینؑ نے بیت المال سے اپنے بھائی کو حصہ دینے کے بعد اپنے بھتیجوں کے خشک چہروں کو دیکھنے کے باوجود بقیہ مال قومی خانے میں پلٹاکر اقرباء پروری کو پاؤں تلے روندنے کی اعلی مثال قائم کی۔ آئین و قانون کی پابندی نہ کرنے والے عمال حکومت کو برطرف کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آپ کو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طویل دینے کی فکر نہ تھی بلکہ آئین و قانون کی بالادستی آپ کا مطمع نظر تھا۔
یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی جناب عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یقیناً میں آپ کو زیادہ دے دیتا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں، انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجا دیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔ آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔
امیر المومنینؑ کی ذات مجموعہ کمالات تھی۔ ان کی فضیلت اور خصوصیات پر قرآنی آیات اور احادیث پیغمبر گرامیؐ قدر اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنی تعلیمات اور سنت رسولؐ کی عملی تعبیر کا مشاہدہ آپؑ کی سیرت عالیہ میں کیا جاسکتا ہے۔ آپؑ انسانی اخلاق اور فضائل و کمالات میں انسان کامل تھے لہذا ان کی زندگی کا ہر پہلو کمال کے متلاشی انسانوں کے لئے چراغ راہ ہے۔ چنانچہ قرآن اور سنت پر ایمان رکھنے والوں کو یہ دونوں چیزیں سیرت علیؑ میں تلاش کرنی چاہیں کیونکہ پیغمبر گرامیؐ قدر اپنے اس فرمان میں فیصلہ فرماچکے ہیں کہ ’’علیؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے۔ علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ ہے۔ علیؑ خلوت و جلوت میں میرے ساتھ رہے‘‘
دور حاضر میں حضرت علیؑ کے تصور اسلام کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس تصور اسلام کی بنیاد آپؑ نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انتہائی اہم‘ حساس اور دورس اقدامات کئے اور زندگی کے سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور عمومی اخلاق میدانوں میں جو نقوش چھوڑے ہیں ان کے گہرے مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ امیر المومنینؑ کے اقدامات کی روشنی میں سنگین معاشرتی مسائل کا عصری تقاضوں کے مطابق حل نکالا جاسکے۔ حضرت علیؑ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی سیرت کے ہر پہلو سے ہر انسان استفادہ کرسکتا ہے۔ ایک عام مزدور سے لے کر ایک بااختیار حکمران تک کے تمام نمونے آپؑ کی حیات طیبہ میں نظر آتے ہیں جبکہ ذاتی زندگی میں ایک فرمانبردار بیٹے‘ وفادار بھائی‘ ذمہ دار شوہر اور قابل تقلید باپ کی حیثیت سے آپ کا عمل ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ لہذا ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں امیر المومنینؑ کی سیرت اقدس سے استفادہ کرنا چاہیے اور اسے ہی نمونہ قرار دے کر اپنی دنیاوی و اخروی نجات کا سامان پیدا کرنا چاہیے۔