Type Here to Get Search Results !

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت و شھادت تاریخ انسانیت کا ایک سیاہ باب!!


آپ کی حیات طیبہ بہت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی درس کی حامل تھی ۔ یہ عظیم خاتون اسلام کے ابتدائی دور مختلف مراحل میں رسول اکرم (ص) اورحضرت علی (ع) کے ساتھ رہیں۔ آپ نے حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم (ص) کے قول کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں ۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظیم شخصیت کے بارے میں دنیا کے بہت سے دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور آپ کو ایک مسلمان عورت کا جامع اور مکمل نمونہ قراردیا ہے اور خود رسول اکرم (ص) نے آپ کو سیدۃ نساء العالمین قرار دیا ہے ۔

نام، القاب

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

یہ ایام عصمت کبری حضرت فاطمہ زہرا (س) کى شہادت کے ایام ہیں، وہ پاک اور مقدس ذات جو ام ابیھا بھی ہے اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) کى ماں بھی ہے.

وہ فاطمہ (س) کہ جس کى مرضی پیغمبر اکرم (ص) کى مرضی ہے اور پیغمبر (ص) کى مرضی خدا کى رضا ہے، جس کا غضب پیغمبر (ص) کا غضب اور پیغمبر کا غضب خدا کا غضب ہے۔

وہ فاطمہ (س) جس کى مادری پر ہمارے آئمہ(ع)، جو عالم انسانیت کے کامل ترین افراد ہیں، فخر کرتے ہیں۔

وہ فاطمہ (س) جس نے اپنی مختصر سی حیات میں ہی شیعیت کو ہمیشہ کے لیے بقا عطا فرمائی۔

وہ فاطمہ (س) جس کے روشن و جلی خطبے نے چاہنے والوں اور دشمنوں کو انگشت بدندان کر دیا۔

وہ فاطمہ جس نے اپنے پدر بزرگوار کى موت کى عظیم ترین مصیبت اور اپنے شوہر نامدار کى مظلومیت کو ، اپنے نالہ و شیون سے تمام لوگوں کو آگاہ کیا ، اور آج بھی وہ اندوہ ناک آواز مدینہ کى گلیوں میں گونج رہی ہے۔

آپ (س) کى ذات والا مقام ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے وجود مبارک کے تمام ابعاد اہل فکر و بصیرت کے لیے ابھی تک روشن نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کو فاطمہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ بشر اس کى حقیقی معرفت سے محروم ہے۔ وہ ذات کہ جس کى ناراضگی، خدا و پیغمبر (ص) کى ناراضگی ہے، اور جس کى خوشنودی خدا و رسول (ص) کى خوشنودی ہے۔ ایسی حقیقت کہ جو فقط اہل کساء کا مرکز ہی نہیں بلکہ آیت تطہیر میں بھی اسی کو مرکزیت حاصل ہے اور اسی مبارک وجود کو ارادہ الٰہی کا واسطہ قرار دیا گیا ہے۔

ہم لوگوں کے لیے کہ جن کو ان بی بی اور ان کى اولاد طاہرہ کى پیروی کا شرف حاصل ہے، حالات کے مدنظر آپ (س) کے افکار و دستورات سے آشنائی بیحد ضروری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وظائف کى انجام دہی میں ہم سے کوتاہی ہو جائے۔ ہمارے محترم علماء و خطباء مجالس عزا کو اعلٰی پیمانے پر منعقد کرنے کے علاوہ اس کے علمی و معنوی پہلوؤں پر خاص توجہ دیں، اور بحمد اللہ چونکہ مکتب تشیع استدلال و منطق کا مکتب ہے لہٰذا صاحبان تدبر و انصاف آسانی سے اس طرف مائل ہو جائیں گے۔

آج اسلامی دشمن اچھی طرح سے واقف ہو چکا ہے کہ اس قوم پر غلبہ پانے کے لیے اور اس پر مسلط ہونے کے لیے اس کے ایمان و اعتقادات کى لو کو کم کرنا پڑیگا لہٰذا کبھی سید الشہداء (ع) پر گریہ و عزاداری کو بیہودہ کاموں سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی حضرت فاطمہ زہرا (س) کى شہادت پر شبہات ایجاد کرتا ہے؛ جب کہ آپ (س) کى شہادت تاریخ اسلام کے حقائق اور مسلمات میں سے ہے۔

دشمن اپنے زعم ناقص میں حضرت (س) کى شہادت میں شبہ تو پیدا کر سکتا ہے لیکن رسول خدا (ص) کے بعد آپ (س) پر ہونے والے مظالم و مصائب کا ہرگز انکار نہیں کر سکتا، آپ کا جوانی میں دنیا سے رخصت ہونا ، مسجد النبی (ص) میں آپ (س) کا مستدل و شعلہ بیان خطبہ ، روز و شب کى آہ و بکا اور حریم ولایت کا مستحکم دفاع ، آپ (س) کى مظلومیت کى روشن دلیلیں ہیں، لہٰذا آپ (س) کے شوہر نامدار اور جہان اسلام آج بھی آپ (س) کى مظلومیت پر عزادار و سوگوار ہیں۔

ہم شیعوں کے لیے فخر کى بات ہے کہ ہمارے پاس ایسی شخصیت ہے کہ جو سیدۂ نساء العالمین اور صاحب عصمت و طہارت ہے اور آیہ تطہیر کہ جو پنج تن (ع) کے متعلق نازل ہوئی ہے، کے مطابق ارادہ الٰہی (ارادہ تکوینی) یہ ہے کہ وہ ہر قسم کى رجس و پلیدی اور گناہ و معصیت سے پاک و دور ہوں اور طہارت مطلقہ سے آراستہ ہوں۔

وہ ذات کہ جو اس منزل پر فائز ہے کہ جہاں تک ہمارے ناقص افکار کى رسائی ممکن نہیں اور ہماری عقل اس کو درک کرنے سے قاصر ہے۔

وہ راہ ولایت کى پہلی شہیدہ ہیں کہ جس کى فرزندی پر ہمارے آئمہ (ع) ناز کرتے تھے۔

فاطمہ وہ خاتون ہیں کہ جس نے سخت ترین مصائب و مظلومیت خصوصاً پیغمبر (ص) جیسے باپ کے دنیا سے رخصت ہونے کى مصیبت اور دشوار ترین حالات کہ جس میں عام انسان بولنے تک کى قدرت نہیں رکھتا، حکام و بزرگان قوم کے مقابل ایسا خطبہ دیا کہ عقلا جس کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسے حالات اور ایسے مواقع پر ایک عورت کس طرح ایسا محکم و متقن خطبہ بیان کر سکتی ہے اور وہ بھی توحید، نبوت و امامت سے متعلق ایسے مطالب اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کى سر زنش جنہوں نے دنیا کى راحت اور عیش و عشرت کے الٰہی فریضہ کو ترک کر دیا اور ظالم کے ظلم کے مقابلے میں تماشائی بنے رہے ۔

بصد افسوس اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ چودہ سو سالوں کے گزر جانے کے بعد آج بھی ہم اس بے مثل گوہر کو نہیں پہچان سکے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض کى جہالت اور نادانی یا نفس پرستی اس بات کا باعث بنی کہ انھوں نے آپ (س) کے مقام و منزلت ہی کو مورد شک و تردید کى نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک معمولی انسان کے لیے یہ سمجھنا دشوار ہے کہ ایک عورت اس مقام و منزلت کى حامل ہو کہ اس کى مرضی خدا کى مرضی کا محور بن جائے۔

ایک مدت سے بہت سے تعصب آمیز مطالب حضرت زہرا (س) کے بارے میں لکھے جا رہے ہیں جن کو سن کر اور پڑھ کر ہر حقیقت پسند انسان کا دل خون ہو جاتا ہے ۔

لہذا شیعوں پر فرض ہے کہ 3 جمادی الثانیہ جو صحیح روایات کى بنیاد پر حضرت زہرا (س) کى شہادت کى تاریخ ہے ، جتنا ممکن ہو اعلیٰ پیمانے پر مجلسیں برپا کریں اور سڑکوں پر جلوس نکالیں تا کہ آنحضرت (س) کا کچھ حق ادا ہو سکے ۔ ظاہر ہے کہ اس امر سے بے توجہی کا نتیجہ بہت برا ہو گا۔

ہمیں فخر ہے کہ دین کے حقیقی معارف آپ (س) کى اولاد طاہرہ کے ذریعہ ہی ہم تک پہنچے ہیں، ایسے معارف جو عقل سلیم کے مطابق اور ہر زمانے کے ساتھ سازگار ہیں، ایسے جامع معارف جو بشریت کى تمام حوائج کى جواب گو ہیں۔ اسی لیے اسلام کے سخت ترین دشمن اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر اس قوم کو مٹانا ہے تو ان سے فاطمیہ، عاشورا اور شعبان و رمضان چھین لیا جائے۔ تو اس وقت ہی اپنے ناپاک ارادوں کو جامہ عمل پہنایا جا سکتا ہے۔

وہ حقیقت جو پنجتن کا مرکز ہے اور خلقت کا عظیم راز ہے جس کو بشریت تو کیا ان کے چاہنے والے بھی نہیں پہچان سکے ہیں۔ وہ انسیہ جس کى نورانی حقیقت جہالت اور ظلم و عناد کى تاریکیوں میں گم ہو گئی اور قیامت تک آشکار نہ ہو سکے گی۔

شیعہ ہی کیا، تمام انسانیت اور ملائکہ ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں، خداوند عالم کا یہ عظیم تحفہ، یہ کوثر جو دین پیغمبر (ص) کى بقاء کا ذریعہ بنا اور جس کے فرزند عالم بشریت کے علوم و کمالات کا سر چشمہ قرار پائے۔

اگر حضرت زہرا (س) کا وجود نہ ہوتا اور یہ گرانمایہ گوہر عالم وجود میں ظہور پذیر نہ ہوتا تو نہ جانے جہالت کی کتنی تاریکیاں اس عالم امکان میں ہوتی؟! آیت مودت کے حکم کے مطابق تمام انسانوں پر واجب ہے کہ دین اسلام کى ہدایت کے بدلکیہے پیغمبر اسلام (ص) کے اقرباء اور ان کے اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت ومودت رکھیں اور اقرباء میں سب سے واضح شخصیت حضرت زہرا (س) کى ہے.

اور یہ مودت کا فریضہ ہر زمانے میں ہر انسان کے لیے ہے فقط ان کے زمانے والوں سے مخصوص نہیں ہے۔

حضرت زہرا (س) کى مودت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کى یاد کو زندہ رکھا جائے اور ان کے وجود نازنین پر ہونے والی مصیبتوں کو بیان کیا جائے۔

ہم کبھی ان مصیبتوں کو فراموش نہیں کر سکتے، تاریخ گواہ ہے کہ مختصر سی زندگی میں آپ پر کتنے مصائب ڈہائے گئے کہ مولٰی الموحدین حضرت علی (ع) نے آپ کى شہادت کے بعد فرمایا: میرا غم دائمی اور ابدی ہے جو کبھی بھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

مولائے کائنات کے ان الفاظ کے بعد کوئی شیعہ، کوئی پیغمبر (ص) کا امتی اس غم کو فراموش کر سکتا ہے، اور اس غم کو چھوڑ سکتا ہے ؟

وہ ذات جس پر خداوند عالم کو فخر ہے ، جو قلب رسول خدا (ص) کى ٹھنڈک ، امیر المومنین علی (ع) کى ہمسر اور معصوم آئمہ کى ماں ہیں۔

وہ ذات جو عالمین کی عورتوں کى سردار ہے۔ اگرچہ قرآن میں خداوند عالم نے حضرت مریم (ع) کے لیے فرمایا ہے”و اصطفاک علٰی نساء العالمین” کہ مریم عالمین کى عورتوں میں سب سے بہتر ہیں لیکن معتبر روایات کى روشنی میں جناب مریم (ع) کی برتری کى وجہ یہ تھی کہ انھوں نے بغیر شوہر کے حضرت عیسی کو جنم دیا لہذا دنیا میں ان کا کوئی نظیر نہیں ہے۔ لیکن حضرت زہرا علم ،عصمت ،طہارت اور عبودیت کى وجہ سے تمام عورتوں سے افضل ہیں ۔

ضروری ہے کہ تمام مسلمان 3 جمادی الثانیہ حضرت زہرا (س) کى شہادت کى مناسبت سے مجلسیں برپا کریں جلوس نکالیں اور اس دن عاشور کى طرح عزاداری منائیں۔ بحمد اللہ ادھر چند سالوں سے محبان حضرت زہرا (س) اس فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔ واضح رہے کہ حضرت زہرا (س) کا احترام حقیقت میں پیغمبر اسلام (ص) کى تعظیم اور ان کا احترام ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: فاطمہ کے غضب سے اللہ غبضناک ہوتا ہے فاطمہ کا غضب اللہ کا غضب ہے جس نے فاطمہ کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی اور خدا کو اذیت پہنچنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) بنت محمد (ص) جن کا معروف نام فاطمۃ زہرا ہے۔ حضرت محمد (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ حضرت محمد (ص) کی شہادت کے بعد ان کے اختلافات ابوبکر اور عمر سے بوجہ خلافت و مسئلہ فدک کے ہوئے ۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے نام نہاد خلیفہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس کی بیعت کی اور مرتے دم تک ان سے کلام تک نہیں کیا اور وصیت کی کہ ان کو میرے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے، آپ کی شہادت اپنے والد حضرت محمد (ص) کی وفات کے چند ماہ بعد ہوئی۔ کچھ اعتقادات اور روایات کے مطابق آپ کی شہادت ان زخموں سے ہوئی جو دروازہ گرانے سے آپ کے بدن مبارک پر لگے تھے دروازہ عمر اور اس کے ساتھیوں نے اس لیے گرایا تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو ابوبکر کی بیعت کے لیے زبردستی لے جانا چاہتے تھے۔

تواریخ میں ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد کچھ صحابہ نے حضرت علی (ع) سمیت غاسب خلاف کی کرسی پر بیٹھنے والے کی بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر نام نہاد خلیفہ آگ اور لکڑیاں لے آیا اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ (س) نے کہا کہ اس گھر میں حضور (ص) کے نواسے حسنین (ع) موجود ہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ ہیں تو ہوتے رہیں۔

حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازے کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرا دیا گیا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں ، روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن بھی شہید ہو گئے۔

حضرت فاطمہ کے لیے چالیس قبریں بنائی گئیں تا کہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے اکثر اور مشہور روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا، بعض روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں، اور جب عمر ابن عبد العزیز نے مسجد نبوی کو توسیع دی تو حضرت فاطمہ کا گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔ نبی مکرم اسلام کی نور نظر، پارہ جگر حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر آج تک مخفی ہے کسی کو صحیح پتہ نہیں کہ وہ کس مقام پر دفن ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر کا مخفی ہونا ان پر ہونے والے مظالم کا واضح ثبوت ہے۔

شہادت

سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3 مہینے بعد تیسری جمادی الثانی ( ایک روایت کہ مطابق 13 جمادی‌الاول ) سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی(رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا . آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ اپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول کا جزو بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن ۱۳۴۴ھجری قمری میں ابن سعود نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہ السّلام کے ساتھ منہدم کرا دیا۔

رسول اکرم (ص) کی دختر گرامی اور حضرت علی (ع) کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت جاں گدازکے موقع پرھم ،خاندان عصمت و طھارت کےعاشقوں ، تمام مسلمانان عالم اور اپنے تمام قارئین کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ھیں۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.