احادیث اور روایات میں حضرت فاطمہؑ کی بہت سے القابات اور کنیتیں ذکر ہوئی ہیں۔ جن میں سیدۃ نساء العالمین، بتول، زہرا اور ام ابیہا آپ کے مشہور القاب اور کنیتوں میں سے ہیں۔
آپ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں ٢٠ جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفی (ص) اور والدہ جناب خدیجۃ الکبری (س) ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ خاتون ہیں کہ جو پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور اپنی پوری زندگی اپنے مال اور جان سے ان کا اور اسلام کا دفاع کرتی رہیں۔
حضرت زہرا (س)کو نور کیوں کہا گیا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم شیخ صدوق کی کتاب امالی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ:
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: کہ جب مجھے معراج ہوئی تو جبرائیل امین میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے گئے اور مجھے جنت کی ایک کجھور پیش کی ، میں نے اسے کھایا اور وہ میرے صلب میں پہنچ کر نطفہ میں تبدیل ہو گئی ۔ اسی سے فاطمہ زہرا وجود میں آئیں۔ لہذا فاطمہ جنتی نور ہیں ، میں جب جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔
ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں کہ الله نے آپ کے نور کو خلق کیا اور اسے اپنے عرش کی زینت بنایا۔ امام حسین (ع) کی زیارت میں پڑہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا نور بلند مرتبہ مردوں کی صلبوں اور پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں رہا۔
ہاں! سب سے پہلے یہ نور حضرت محمد مصطفی (ص) اور حضرت علی (ع) کے وجود میں رہا اور بعد میں حضرت زہرا (س) کی طرف منتقل ہو گیا۔
جب حضرت زہرا (س) کا نور اس دنیا میں آیا تو پیغمبر اسلام (ص) کا دل شاد ہو گیا۔ پیغمبر اسلام (ص) جانتے تھے کہ میری نسل فقط فاطمہ کے ذریعہ ہی آگے بڑھے گی اس لیے وہ ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور احتراما آپ کو "ام ابیھا" کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہنچائی پیغمبر اسلام کا روز کا معمول تھا کہ جب نماز صبح کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا (س) کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر فرماتے تھے:
السلام علیک یا اھل بیت النبوة، انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا،
آپ کا کوثر قرار پانا:
حضرت زہرا (س) نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں اس میں لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر باپ غصہ سے کانپنے لگتا تھا اور ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا کہ اگر اس میں کسی انسان کے فقط بیٹیاں ہی ہوتی تھیں تو اسے بے اولاد سمجھا جاتا تھا اور اس زمانہ کے دنیا پرست انسان اسے ایک عیب تصور کرتے تھے۔
لیکن پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ آپ کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ آپ کے کوئی اولاد نہیں ہے لہذا جب آپ دنیا سے چلے جائیں گے تو آپ کی نسل ختم ہو جائے گی اور آپ کی نبوت کا بھی کوئی نام و نشان باقی نہ رہے گا۔
اولاد نہ ہونے کی بنا پر آپ کی مذمت کرنے والا عاص بن وائل تنہا انسان نہیں تھا بلکہ وہ اس پورے جاہل اور انسانیت مخالف معاشرے کا ترجمان تھا جو اپنی طاقت کے ساتھ پیغمبر اسلام اور الہی تعلیم کی مخالفت کر رہا تھا۔
ان تمام برائیوں اور آخری پیغمبر کی نبوت کے مٹ جانے کے بیہودہ خیالوں کے جواب میں خداوند نے پیغمبر کو کوثر (فاطمہ) عطا کی، اور آپ کی شان میں سورہٴ کوثر کو نازل فرمایا۔ اگر اس سورہ کی تفسیر خیر کثیر بھی کی جائے تب بھی یہ سورہ حضرت زہرا کی ذات پر منطبق ہو گی، کیونکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علی کی نسل سے گیارہ امام حضرت زہرا کے ہی بیٹے ہیں۔ اور حجت خدا حضرت امام مہدی (عج) جن کے وجود سے الله اس جہان کو عدل و انصاف سے پر فرمائے گا وہ بھی آپ کے ہی بیٹے ہیں۔ آج ہمیں دنیا کے ہر کونے میں پیغمبر اسلام کی اولاد نظر آ رہی ہے جن میں بہت سے جید علماء بھی ہیں یہ سب اولاد حضرت زہرا (س) ہی ہیں۔
یہ خیر کثیر ، یہ کوثر،اور یہ پاک و پاکیزہ نسل قیامت تک اسی طرح جاری رہے گی خدا کا شکر کہ پیغمبر کی نسل ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) کے جگر کا ٹکڑا:
اپنے بچوں سے ہر انسان محبت کرتا ہے، یہ ایک فطری چیز ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے کسی استدلال کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ اس جذبہٴ محبت کا نتیجہ ہے جس کو خداوند نے ہر انسان کے وجود میں رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ماں باپ رات بھر جاگ کر تمام پریشانیاں برداشت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خاطر ہر طرح کی مصیبت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔ البتہ یہ محبت ہر انسان میں الگ الگ درجہ میں پائی جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں میں بہت کم ، کچھ لوگوں میں ضروری حد تک اور کچھ میں بہت ہی زیادہ۔
بہت زیادہ محبت دو وجہ سے ہو سکتی ہے:
(١) جہالت و نادانی کی بنا پر: ایسی محبت سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور یہ محبت ان کے لیے نفع بخش ہونے کی بجائے، مضر ثابت ہوتی ہے ۔
(٢) اولاد میں پائی جانے والی خوبیوں کے سبب: ایسی محبت بچوں کی قدردانی کی دلیل ہے اور اس محبت کی وجہ سے ان کے اندر پائی جانے والی صلاحتیں اجاگر ہوتی ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ پیغمبروں میں جہالت و نادانی نہیں پائی جاتی۔ خاص طور پر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے بارے میں تو اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ آپ اشرف مخلوقات اور عقل کل ہیں۔ آپ کا ہر عمل عقل و حکمت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
جو انسان آخری پیغمبر کی شکل میں انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہو، نہ وہ بیہودہ باتیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا سچا اور امین ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ان کے اخلاق و کرادر کی تعریف کرتے ہوا کہا ہے کہ: آپ خلق عظیم کی منزل پر فائز ہیں۔
اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد اب ہم پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے حضرت زہرا کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور مجھے ناراض کیا ہے۔
آپ کا "ام ابیھا" قرار پانا:
عربوں میں رسم ہے کہ ہر انسان کی ایک کنیت ہوتی ہے اور وہ احتراما ایک دوسرے کو اسی کنیت سے پکارتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت زہرا (س) کا اتنا احترام کرتے تھے کہ آپ کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ آپ کو آپ کی کنیت ام ابیہا سے خطاب فرماتے تھے۔ ام ابیہا یعنی اپنے باپ کی ماں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام کی والدہ کا آپ کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا اس لیے آپ اپنی ماں کے بعد حضرت فاطمہ بنت اسد یعنی حضرت علی (ع) کی والدہ سے بہت محبت کرنے لگے تھے اور آپ ہی کو ماں کہتے تھے ۔ جب ان کا انتقال ہو تو پیغمبر اسلام بہت غمگین ہوئے اور فرمایا کہ:
آج میری ماں اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔
اس کے بعد خداوند نے پیغمبر اسلام (ص) کو فاطمہ عطا فرمائی۔ جب آپ فاطمہ کو دیکھتے تھے تو آپ کو فاطمہ بنت اسد یاد آ جاتی تھیں اور آپ فاطمہ کی شکل میں انھیں کو دیکھنے لگتے تھے۔ اسی لیے آپ نے حضرت زہرا کے لیے "ام ابیہا" کی کنیت کا انتخاب فرمایا۔ ہاں! حضرت زہرا پیغمبر اسلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی ماں کے مثل بھی تھیں۔
حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار:
حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔
حضرت زہرا (س) کی شادی:
جب حضرت زہرا (س) جوان ہوئیں تو انسان کامل میں پائے جانے والے تمام کمالات آپ کی ذات میں موجود تھے۔ چمکتا ہوا چہرہ ، نیک اخلاق، خاندانی شرافت، کلام کی فصاحت و بلاغت اور دیگر تمام کمالات کہ جن کی تعداد سے فقط خداوند کی ذات ہی آگاہ ہے ، آپ میں پائے جاتے تھے۔ ان ذاتی کمالات کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ آپ پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی تھیں۔ اس لیے بہت سے اشراف و غیر اشراف انسان آپ سے شادی کے متمنی تھے۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبر اسلام فاطمہ کی شادی ہمارے ساتھ کرنے پر راضی ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان میں سے ایک امیدوار ابوبکر بھی تھا، لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے جواب میں فرمایا: میں ابھی الله کے فیصلے کا منتظر ہوں۔
عمر نے بھی اپنی تمنا کا اظہار کیا مگر انھیں بھی وہی جواب سننا پڑا جو پہلے سن چکے تھے ۔ انس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف اور عثمان بن عفان پیغمبر کے پاس آئے ، عبد الرحمن نے عرض کیا کہ آپ فاطمہ کی شادی میرے ساتھ کر دیں، میں مہر میں دس ہزار دینار اور مصر کے قیمتی کپڑوں سے لدے ہوئے کالے رنگ کے سبز آنکھوں والے ایک سو اونٹ دوں گا۔
عثمان نے کہا کہ میں بھی اتنا مہر دینے کے لیے تیار ہوں آپ مجھ پر لطف فرمائے کیونکہ میں نے عبد الرحمن سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام (ص) کو جلال آ گیا اور آپ نے کچھ سنگریزے اٹھا کر عبد الرحمن کی طرف پھینکے اور فرمایا تو میرے سامنے اپنی دولت پر فخر کرتا ہے ؟ وہ سب سنگریزے موتیوں میں تبدیل ہو گئے اور ان میں کا ایک ایک در عبد الرحمن کی تمام دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔
ابھی حضرت زہرا (س) کی شادی نہیں ہوئی تھی کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ مدینہ جا کر آباد ہو گئے۔ وہاں پر حضرت علی (ع) پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے اور آپ کی عمر بیس سال ہو چکی تھی۔ آپ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے سب سے پہلے انسان تھے اور آپ کی ذات اتنے کمالات کا مرکز تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے آپ سے حسد کرنے لگے تھے۔ آپ اپنے کمالات کی بنا پر تمام انسانوں میں اس طرح نمایاں تھے جیسے آسمان پر سورج نمایاں رہتا ہے۔
حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (ع) دونوں ایک خاندان سے تھے تو کیا حضرت زہرا کے لیے حضرت علی سے اور حضرت علی کے لیے حضرت زہرا سے بہتر شریک حیات ہو سکتا تھا ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ حضرت علی نے پیغمبر اسلام کے سامنے فاطمہ زہرا سے شادی کی تمنا ظاہر نہیں کی تھی ؟
کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت امام صادق (ع) سے روایت ہے :
اگر خداوند نے حضرت علی کو پیدا نہ کیا ہوتا تو حضرت زہرا کا کوئی کفو نہ ہوتا۔
ابن مسعود نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: الله نے مجھے فاطمہ کی شادی علی کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کچھ بھی ہو ایک دن ایسا آ ہی گیا کہ حضرت علی نے پیغمبر اسلام کے سامنے اس تمنا کا اظہار کر ہی دیا۔
زوجہ رسول جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے کانوں میں دروازہ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئی ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب سنتی پیغمبر اسلام نے فرمایا جاؤ دروزاہ کھولو اور کہو کہ اندر آ جاؤ،کیونکہ آنے والا وہ ہے جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتا ہے اور وہ بھی الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اسی دوران علی (ع) گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر اسلام (ص) سے حضرت زہرا (س) کے ساتھ شادی کے سلسلہ میں بات چیت کی ۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہ سن کر پیغمبر کا چہرہ خوشی سے کھل گیا اور آپ نے فرمایا:
اس سے پہلے کہ میں زمین پر فاطمہ کی شادی علی سے کروں، آسمان پر الله نے فاطمہ کی شادی علی سے کر دی ہے۔ جو بھی ہوا ہو یہ مبارک شادی ہو گی اور حضرت زہرا کا مہر چار سو اسّی درہم قرار پایا ۔ جسے حضرت علی (ع) نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کیا۔
پیغمبر اسلام (ص) نے اس رقم کو چند حصوں میں تقسیم فرمایا:
ایک سو ساٹھ درہم عطر کے لیے۔ ایک سو ساٹھ درہم لباس کے لیے۔ چھیاسٹھ درہم گھر کے سامان کے لیے اور چھیانوے درہم جناب ام سلمہ کو دئیے کہ انھیں دیگر اخراجات کے لیے اپنے پاس رکھو۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اس مختصر سامان کو خریدنے کے لیے کچھ لوگوں کو معیّن فرمایا۔ ہم یہاں پر حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کے گھر کے سامان کی تفصیل بیان کرتے ہیں تا کہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں اسے نمونہٴ عمل قرار دیں اور محبت پر مبنی بابرکت زندگی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ سکیں:
(١) لباس سات درہم
(٢) چارد چار درہم
(٣) مقنعہ چار درہم
(٤) کھجور کی پتیوں کا بنا تکیہ
(٥) دو گدے جن میں سے ایک میں بھیڑ کی اون اور دوسرے میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں۔
(٦) چار چمڑے کے تکیے جن میں اذخر نامی خوشبو دار گھاس بھری ہوئی تھی۔
(٧) ایک نازک اونی پردا
(٨) ایک چٹائی
(٩) جو پیسنے کے لیے ایک چکی
(١٠) کپڑے دھونے کا تشت
(١١) ایک لکڑی کا پیالہ
(١٢) پانی کا جگ
(١٣) ایک صراحی
(١٤) ایک لوٹا
(١٥) ایک سبز رنگ کا مٹی کا مٹکا
(١٦) چند مٹی کے برتن
(١٧) ایک چمڑے کا گدا
(١٨) ایک چارد
یہ حضرت زہرا (س) کا جہیز تھا جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے لایا گیا۔ پیغمبر اسلام نے تمام چیزوں کو ہاتھوں میں لے کر دیکھا اور فرمایا: الله اس سامان کو اہل بیت کے لیے مبارک قرار دے۔
ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا: اے الله ! اس سامان کو اہل بیت کے لیے مبارک قرار دے کہ اس میں اکثر برتن مٹی کے ہیں۔
حضرت علی نے حضرت زہرا کی آمد پر جو انتظام فرمایا تھا اس کی تفصیل یہ ہے:
(١) سونے کے کمرے میں باریک و نرم ریت بچھا دی گئی تھی۔
(٢) کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے دونوں دیواروں کے درمیان ایک لکڑی لگا دی گئی تھی۔
(٣) گوسفند کی کھال بچھا کر اس پر کھجور کی پتیوں سے بنا ایک تکیہ رکھ دیا گیا تھا۔
(٤) دیوار میں ایک کھونٹی گاڑ کر اس پر ایک تولیہ لٹکا دیا گیا تھا۔
(٥) ایک صراحی کا انتظام کیا گیا تھا۔
(٦) آٹا چھاننے کے لیے ایک چھنی مہیا کی گئی تھی۔
یہ تھا دین و دنیا کے امیر حضرت علی (ع) کے گھر کا سرمایہ۔
ہاں! حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کی شادی بڑی سادگی کے ساتھ ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام (ص) نے ولیمہ کر کے حضرت زہرا (س) کو حضرت علی (ع) کے ساتھ رخصت کر دیا تھا۔
اس مبارک گھر کی بنیاد جس طرح رکھی گئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس شادی کے نتیجہ میں جو مبارک اولاد وجود میں آئی ان کے نور نے اس دنیا کو اس طرح منور فرمایا کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر انسان بخوبی واقف ہے۔ ہم یہاں پر فقط حضرت زہرا (س) کی اولاد کے ناموں کو بیان کر رہے ہیں:
حضرت امام حسن مجتبی (ع) ، حضرت امام حسین (ع) ، حضرت زینب (س) اور پھر جناب ام کلثوم اس دنیا میں تشریف لائیں ۔
ان چار اولاد کے علاوہ آپ کے ایک محسن نامی بیٹے بھی تھے۔ جو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس وقت شہید ہو گئے تھے جب ظالموں نے حضرت زہرا (س) پر دروازہ گرایا تھا اور آپ در و دیوار کے پس گئیں تھیں۔
قرآن کریم میں حضرت زہرا (س) کے فضائل:
قرآن کریم میں حضرت زہرا (س) کی شان میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔
(١) سورہ دہر:
شیعہ و سنی دنوں فرقوں کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ حسنین (ع) بیمار ہوئے ، پیغمبر اسلام ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ آپ نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ اگر ان بچوں کی صحت کے لیے نذر مانی جائے!
حضرت علی نے بچوں کے صحت یاب ہونے پر تین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ، حضرت زہرا اور گھر کی کنیز نے بھی یہی نذر مانی۔
حسنین کے شفایاب ہونے پر نذر کو پورا کیا گیا ۔ حضرت علی (ع)، حضرت زہرا (س) اور فضہ نے روزہ رکھا۔ حضرت علی کے گھر میں افطار کے لیے کچھ نہ تھا ۔ حضرت کا ایک پڑوسی اون کا کاروبار کرتا تھا لوگ اس سے کچا مال لے جاتے اور اون تیار کر کے دیتے تھے اور اس کام کے بدلہ اپنے کام کی مزدروی حاصل کرتے تھے۔ حضرت بھی اس کے پاس گئے اور اس سے اس معاملہ پر کچھ جو حاصل کیے کہ جو کی قیمت کی برابر حضرت زہرا اس کے لیے اون تیار کریں گی۔
جو کو پیس کر افطار کے لیے کچھ روٹیاں تیار کی گئیں۔ افطار کا وقت قریب آیا اور اب حضرت علی کے مسجد سے گھر پلٹنے کا انتظار ہونے لگا ۔ جب حضرت علی گھر تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا ، تمام اہل بیت اور فضہ دسترخوان پر آ کر بیٹھ گئے، اس بابرکت دسترخوان پر فقط چار روٹیاں رکھی ہوئی تھیں ابھی کسی نے روٹی کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا کہ کسی نے دروازہ پر آ کر آواز دی اے اہل بیت نبوت آپ پر میرا سلام ہو، میں ایک مسکین ہوں آپ جو کھا رہے ہیں اس میں سے مجھے بھی عطا کریں، خدا آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر فرمائے گا۔ یہ سن کر دسترخوان پر رکھی ہوئی روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالہ کر دی گئیں اور اہل بیت نے پانی سے افطار کیا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی حضرت زہرا نے روٹیاں تیار کیں اور پہلے دن کی طرح ہی یتیم و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کر کے بھوکے سو گئے۔ اسی دوران جبرئیل امین اہل بیت کی شان میں سورہٴ دہر لے کر نازل ہوئے۔ جب تک قرآن باقی رہے گا اور اس کی تلاوت ہوتی رہے اور سورہٴ دہر کی آیات کو پڑھا جاتا رہے گا اہل بیت (ع) کا یہ افتخار دنیا کے سامنے نمایاں ہوتا رہے گا۔
(٢) آیت اجر رسالت:
قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ،
یعنی اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت کی جائے۔
اہل بیت پیغمبر (قربیٰ) کون ہیں ؟ حضرت زہرا (س) کی شہادت کے واقعہ سے یہ پتہ چلے گا کہ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی وصیت اور اس آیت پر کس طرح عمل کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر گمراہ لوگوں کو نقصان ہوا اور انھوں نے اس راستے کو طے کیا جس سے پیغمبر اسلام کو اذیت پہنچی۔ یہ آیت وہ شاہد اور حجت ہے کہ جس کے ذریعہ حضرت زہرا (س) اس وقت احتجاج کریں گی جب ظالموں کو سزا اور مظلوموں کو ان کا حق دینے کے لیےخالق کائنات کی عدالت برپا ہو گی۔ وہاں پر ظالم اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں گے۔
(٣) آیت مباہلہ:
پیغمبر اسلام (ص) نے الله کے پیغام کو پہنچایا اور انسانوں پر حجت کو تمام کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور حق کی مخالفت کرنے لگے۔ الله نے پیغمبر اسلام کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ کرو اور ان سے کہو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ اور ہم بھی اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں ، تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم بھی اپنی عورتوں کو لاتے ہیں، تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم بھی اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر الله کی لعنت قرار دیں۔
حق کو قبول نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ عیسائیوں کا بھی تھا۔ وہ مباہلہ کے لیے تیار ہو گئے اور اس کے لیے 24 ذی الحجہ کا دن طے ہوا ۔ جیسے جیسے مباہلہ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لوگوں کی بیچینیاں بڑھتی جا رہی تھیں کہ دیکھیں اب پیغمبر اسلام کیا کرتے ہیں؟
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام اس شان سے اپنے گھر سے نکلے کہ امام حسین (ع) کو گود میں لیے ہوئے تھے ،حضرت امام حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت زہرا (س) آپ کے پیچھے چل رہیں تھیں اور حضرت علی (ع) ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ آج پیغمبر اسلام کے لیے بیٹے حسنین ، نفس علی، اور خاتون حضرت زہرا تھیں۔ نصاری نجران یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام بادشاہوں کی طرح شان و شوکت اور بھیڑ بھاڑ کے ساتھ میدان میں آئیں گے لیکن جب انھوں نے پیغمبر اسلام کو اس شان سے آتے دیکھا تو دنگ رہ گئے اور آپ اور آپ کے اہل بیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے سب سے بڑے عالم سے کہنے لگے اے ابو حارث! دیکھ رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا: مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ میں ان انسانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ الله کو قسم دے کر یہ کہیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں تو وہ ایسا ہی کرے گا ۔ حضرت عیسی کی قسم اگر مسلمانوں کا نبی دعا کرے تو کوئی عیسائی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔ ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
(٤) آیہ تطہیر:
انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیراً۔
کیونکہ آیہٴ تطہیر کی تفصیل کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے لہذا ہم یہاں پر اس کی طرف اشارہ کر کے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ شیعہ و سنی علماء کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت حضرت زہرا (س) آپ کے بابا، آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
حدیث کساء سے ظاہر ہے کہ اس کی شان نزول کا محور بھی حضرت زہرا کی ہی مقدس ذات ہے۔ الله نے یہ آیت آپ کی شان میں نازل کر کے فرمایا کہ اے اہل بیت بس الله کا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے ہر رجس کو دور رکھے اور آپ کو ایسا پاک و پاکیزہ کرے کہ جس طرح پاک کرنے کا حق ہے.