نام، کنیت اور لقب: آئمہ اہل بیت میں سے دسویں امام کا نام ’’علی‘‘ ، کنیت ابو الحسن اور مشہور لقب ہادی اور نقی ہے۔
تاریخ ومقام ولادت اور شہادت: حضرت علی نقی(ع) کی ولادت باسعادت مدینہ کے ایک قریبی گاؤں میں سن ٢١٤ ہجری میں ہوئی، جبکہ ٣ رجب سن ٢٥٤ ہجری میں امام علی نقی(ع) کو سامرہ میں زہر سے شہید کیا گیا اور سامرہ میں ہی دفن کیا گیا۔
امام علی نقی علیہ السلام نے ٤٠ سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا، زندگی کے ان چالیس سالوں میں سے چھ 6سال اپنے والد کے ساتھ گزارے اور اُن کی شہادت کے بعد ٣٣ سال اور چند مہینے زندہ رہے۔
اولاد: امام علی نقی علیہ السلام کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(١): امام حسن عسكری(ع)، (٢):حسين، (٣): محمد، (٤):جعفر
اور بیٹی کا نام: عليہ ہے۔
متوكل کا دور حکومت: حضرت علی علیہ السلام اور ان کی ذریت سے متوكل کا بغض کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے امام علی نقی علیہ السلام کے مدینہ میں عزت و احترام کے بارے میں جب متوکل کو معلوم ہوا تو اسے امام علیہ السلام کی لوگوں میں مقبولیت سے خوف لاحق ہو گیا لہذا اس نے یحیی بن ہرثمہ کو بلایا اور اسے مدینہ جانے اور وہاں سے امام علی نقی علیہ السلام کو لانے کا حکم دیا۔
یحيى کہتا ہے: جب میں مدینہ میں داخل ہوا تو مدینہ کے رہنے والوں نے احتجاج کرنا اور شور مچانا شروع کر دیا لوگوں نے امام علی نقی(ع) کے لیے اس دن کی مانند پہلے کبھی خوف محسوس نہیں کیا تھا، سب لوگ باہر آ گئے کیونکہ امام علی نقی(ع) سب کے ساتھ نیکی و احسان سے پیش آتے تھے، زیادہ وقت مسجد میں گزارتے تھے اور دنیا سے انھیں بالکل لگاؤ نہیں تھا۔ یحيى کہتا ہے میں نے لوگوں کو تسلی دی اور قسم اٹھا کر بتایا کہ مجھے انھیں ضرر پہنچانے کا حکم نہیں ملا وہ خیریت سے ہیں۔ پھر میں نے امام علی نقی علیہ السلام کے گھر کی تلاشی لی لیکن مجھے وہاں سے قرآن، دعاؤں اور مختلف علوم کی کتابوں کے کچھ نہ ملا، جس سے میری نظر میں ان کی عظمت اور بھی بڑھ گئی، جس کے بعد میں نے خود ان کی خدمت کی ذمہ داری سنبھال لی اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔
امام علی نقی علیہ السلام کو سامراء لے جا کر ایک گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور ان کی مکمل نگرانی شروع کر دی گئی پھر ایک رات متوکل نے ترکوں کے ایک گروہ کو بھیجا جس نے امام کے گھر پہ حملہ کر دیا اور امام(ع) کو گرفتار کر کے متوکل کے پاس لے گیا۔ متوکل کو ان ترکوں نے بتایا کہ ہمیں امام کے گھر میں سے کچھ نہیں ملا، بس وہاں ہم نے امام کو قبلہ رخ ہو کر قرآن پڑھتا ہوا پایا۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے کرامات اورآپ کاعلم باطن
امام علی نقی علیہ السلام تقریبا ۲۹/ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپنے اس مدت عمرمین کئی بادشاہوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے یعنی تبلیغ دین اورتحفظ بنائے مذہب اوررہبری ہواخواہاں میں فائزالمرام رہے آپ چونکہ اپنے آباؤاجدادکی طرح علم باطن اورعلم غیب بھی رکھتے تھے اسی لیے آپ اپنے ماننے والوں کوہونے والے واقعات سے باخبرفرمادیاکرتے تھے اورسعی فرماتے تھے کہ حتی الوسع مقدورات کے علاوہ کوئی گزند نہ پہنچنے پائے اس سلسلہ میں آپ کے کرامات بے شمارہیں جن میں سے ہم اس مقام پرکتاب کشف الغمہ سے چندکرامات تحریرکرتے ہیں۔
۱ ۔ محمدبن فرج رجحی کابیان ہے کہ حضرت امام علی نقی نے مجھے تحریرفرمایا کہ تم اپنے تمام امورومعاملات کوراست اورنظام خانہ کودرست کرلو اور اپنے اسلحوں کوسنبھال لو، میں نے ان کے حکم کے بموجب تمام درست کرلیا لیکن یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حکم آپ نے کیوں دیاہے لیکن چنددنوں کے بعد مصرکی پولیس میرے یہاں آئی اورمجھے گرفتارکرکے لے گئی اورمیرے پاس جوکچھ تھا سب لے لیا اورمجھے قیدخانہ میں بندکردیا میں آٹھ سال اس قیدخانہ میں پڑارہا، ایک دن امام علیہ السلام کاخط پہنچا، جس میں مرقوم تھا کہ اے محمدبن فرج تم اس ناحیہ کی طرف نہ جانا جومغرب کی طرف واقع ہے خط پاتے ہی میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی میں سوچتارہا کہ میں توقیدخانہ میں ہوں میراتوادھرجاناممکن ہی نہیں پھرامام نے کیوں یہ کچھ تحریرفرمایا آپ کے خط آنے کوابھی دوچاریوم ہی گذرے تھے کہ میری رہائی کاحکم آگیا اورمیں ان کے حسب الحکم مقام ممنوع کی طرف نہیں گیا قیدخانہ سے رہائی کے بعدمیں نے امام علیہ السلام کولکھا کہ حضورمیں قیدسے چھوٹ کرگھرآگیاہوں، اب آپ خداسے دعاء فرمائیں کہ میرامال مغصوبہ واپس کرادے آپ نے اس کے جواب میں تحریرفرمایاکہ عنقریب تمہاراسارامال تمہیں واپس مل جائے گا چنانچہ ایساہی ہوا۔
۲ ۔ ایک دن امام علی نقی علیہ السلام اورعلی بن حصیب نامی شخص دونوں ساتھ ہی راستہ چل رہے تھے علی بن حصیب آپ سے چندگآم آگے بڑھ کرلولے آپ بھی قدم بڑھاکرجلدآجائیے حضرت نے فرمایاکہ اے ابن حصیب ”تمہیں پہلے جاناہے“ تم جاؤ اس واقعہ کے چاریوم بعدابن حصیب فوت ہوگئے۔
۳ ۔ ایک شخص محمدبن فضل بغدادی کابیان ہے کہ میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کولکھا کہ میرے پاس ایک دکان ہے میں اسے بیچنا چاہتاہوں آپ نے اس کاکوئی جواب نہ دیا جواب نہ ملنے پرمجھے افسوس ہوا لیکن جب میں بغداد واپس پہنچا تووہ آگ لگ جانے کی وجہ سے جل چکی تھی۔
۴ ۔ ایک شخص ابوایوب نامی نے امام علیہ السلام کولکھاکہ میری زوجہ حاملہ ہے، آپ دعا فرمائیے کہ لڑکاپیداہو،آپ نے فرمایاانشاء اللہ اس کے لڑکاہی پیداہوگا اورجب پیداہوتو اس کانام محمدرکھنا چنانچہ لڑکاہی پیداہوا، اوراس کانام محمدرکھاگیا۔
۵ ۔ یحی بن زکریاکابیان ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کولکھاکہ میری بیوی حاملہ ہے آپ دعافرمائیں کہ لڑکاپیداہوآپ نے جواب میں تحریرفرمایا، کہ بعض لڑکیاں لڑکوں سے بہترہوتی ہیں، چنانچہ لڑکی پیداہوئی۔
عہدواثق کاایک واقعہ
۶ ۔ ابوہاشم کابیان ہے کہ میں ۲۲۷ ہجری میں ایک دن حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا کہ کسی نے آکرکہاکہ ترکوں کی فوج گذررہی ہے امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ائے ابوہاشم چلوان سے ملاقات کریں میںحضرت کے ہمراہ ہوکرلشکریوں تک پہنچا حضرت نے ایک غلام ترکی سے اس کی زبان میں گفتگوشروع فرمائی اوردیرتک باتیں کرتے رہے اس ترکی سپاہی نے آپ کے قدموں کابوسہ دیا میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کونسی چیزہے جس نے تجھے امام کاگرویدہ بنادیاہے اس نے کہاامام نے مجھے اس نام سے پکاراجس کاجاننے والا میرے باپ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
تہترزبانوں کی تعلیم
۷ ۔ ابوہاشم کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے مجھ سے ہندی زبان میں گفتگوکی جس کامیں جواب نہ دے سکا توآپ نے فرمایاکہ میں تمہیں ابھی ابھی تمام زبانوں کاجاننے والابتائے دیتا ہوں یہ کہہ کرآپ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اوراسے اپنے منہ میں رکھ لیا اس کے بعداس سنگریزہ کومجھے دیتے ہوئے فرمایاکہ اسے چوسو، میں نے منہ میں رکھ کراسے اچھی طرح چوسا، اس کانتیجہ یہ ہواکہ میں تہترزبانوں کاعالم بن گیا جن میں ہندی بھی شامل تھی اس کے بعدسے پھرمجھے کسی زبان کے سمجھنے اوربولنے میں دقت نہ ہوئی ص ۱۲۲ تا ۱۲۵
امام علی نقی کے ہاتھوں میں ریت کی قلب ماہیت
۸ ۔ آئمہ طاہرین کے اولوالامرہونے پرقرآن مجیدکی نص صریح موجودہے ان کے ہاتھوں اورزبان میں خداوند جوارادہ کریں اس کی تکمیل ہوجائے جوحکم دیں اس کی تعمیل ہوجائے ابوہاشم کابیان ہے کہ ایک دن میں نے امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں اپنی تنگ دستی کی شکایت کی آپ نے فرمایابڑی معمولی بات ہے تمہاری تکلیف دورہوجائے گی اس کے بعدآپ نے رمل یعنی ریت کی ایک مٹھی زمین سے اٹھاکرمیرے دامن میں ڈال دی اورفرمایااسے غورسے دیکھو اوراسے فروخت کرکے کام نکالو ابوہاشم کہتے ہیں کہ خداکی قسم جب میں نے اسے دیکھاتووہ بہترین سونا تھا، میں نے اسے بازارلے جاکرفروخت کردیا(مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۹) ۔
امام علی نقی اوراسم اعظم
۹ ۔ حضرت ثقة الاسلام علامہ کلینی اصول کافی میں لکھتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا اسم اللہ الاعظم ۷۳/ حروف میں ان میں سے صرف ایک حرف آصف برخیا وصی سلیمان کودیاگیاتھا جس کے ذریعہ سے انہوں نے چشم ردن میں ملک سباسے تخت بلقیس منگوالیاتھا اوراس منگوانے میں ہوایہ تھا کہ زمین سمٹ کرتخت کوقریب لے آئی تھی، اے نوفلی(راوی) خداوندعالم نے ہمیں اسم عظم کے بہترحروف دئیے ہیں اوراپنے لیے صرف ایک حرف محفوظ رکھاہے جوعلم غیب سے متعلق ہے مسعودی کاکہناکاہے کہ اس کے بعدامام نے فرمایاکہ خداونداعالم نے اپنی قدرت اوراپنے اذن وعلم سے ہمیں وہ چیزیں عطاکی ہیں جوحیرت انگیزاورتعجب خیزہیں مطلب یہ ہے کہ امام جوچاہیں کرسکتے ہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہوسکتی(اصول کافی،مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۸ ، دمعہ ساکبہ ص ۱۲۶) ۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورصیحفہ کاملہ کی ایک دعا
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے ایک صحابی سبع بن حمزہ قمی نے آپ کوتحریرکیاکہ مولامجھے خلیفہ معتصم کے وزیرسے بہت دکھ پہنچ رہاہے مجھے اس کابھی اندیشہ ہے کہ کہیں وہ میری جان نہ لے لے حضرت نے اس کے جواب میں تحریرفرمایا کہ گھبراؤ نہیں اوردعائے ”صحیفہ کاملہ“ یامن تحل بہ عقدالمکارہ الخ پڑھو مصیبت سے نجات پاؤگے۔
یسع بن حمزہ کابیان ہے کہ میں نے امام کے حسب الحکم نمازصبح کے بعداس دعاکی تلاوت کی جس کاپہلے ہی دن یہ نتیجہ نکلاکہ وزیر خودمیرے پاس آیا مجھے اپنے ہمراہ لے گیا اورلباس فاخرہ پہناکرمجھے بادشاہ کے پہلومیں بٹھادیا۔
حکومت کی طرف سے امام علی نقی کی مدینہ سے سامرہ میں طلبی اور راستہ کاایک اہم واقعہ
متوکل ۲۳۲ ہجری میں خلیفہ ہوا اوراس نے ۲۳۶ ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی قبرکے ساتھ پہلی باربے ادبی کی، لیکن اس میں پوری کامیابی نہ حاصل ہونے پراپنے فطری بغض کی وجہ سے جوآل محمدکے ساتھ تھا وہ حضرت علی نقی علیہ السلام کے طرف متوجہ ہوا متوکل ۲۴۳ ہجری میں امام علی نقی کوستانے کی طرف متوجہ ہوا، اوراس نے حاکم مدینہ عبداللہ بن محمدکوخفیہ حکم دے کربھیجا کہ فرزندرسول امام علی نقی کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے چنانچہ اس نے حکومت کے منشاء کے مطابق پوری توجہ اورپورے انہماک کے ساتھ اپنا کام شروع کردیا خودجس قدرستاسکا اس نے ستایا اورآپ کے خلاف ریکارڈ کے لیے متوکل کوشکایات بھیجنی شروع کیں۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام کویہ معلوم ہوگیاکہ حاکم مدینہ نے آپ کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردی ہیں اوراس سلسلہ میں اس نے متوکل کوآپ کی شکایات بھیجنی شروع کردی ہیں توآپ نے بھی ایک تفصیلی خط لکھا جس میں حاکم مدینہ کی بے اعتدالی اورظلم آفرینی کاخاص طورسے ذکرکیا متوکل نے آپ کا خط پڑھ کرآپ کواس کے جواب میں لکھاکہ آپ ہمارے پاس چلے آئیے اس میں حاکم مدینہ کے عمل کی معذرت بھی تھی، یعنی جوکچھ وہ کررہاہے اچھانہیں کرتا ہم اس کی طرف سے معذرت خواہ ہیں مطلب یہ تھا کہ اسی بہانہ سے انہیں سامرہ بلالے خط میں اس نے اتنانرم لہجہ اختیارکیاتھا جوایک بادشاہ کی طرف سے نہیں ہواکرتا یہ سب حیلہ سازی تھی اورغرض محض یہ تھی کہ آپ مدینہ چھوڑکرسامرہ پہنچ جائیں (نورالابصارص ۱۴۹) ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ متوکل نے یہ بھی لکھاتھا کہ میں آپ کی خاطرسے عبداللہ ابن محمدکومعزول کرکے اس کی جگہ پرمحمدبن فضل کومقررکررہاہوں (جلاء العیون ص ۲۹۲) ۔
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ متوکل نے صرف یہ نہیں کیا کہ علی نقی علیہ السلام کوخط لکھا ہوکہ آپ سامرہ چلے آئیے بلکہ اس نے تین سوکا لشکریحی بن ہرثمہ کی قیادت میں مدینہ بھیج کرانہیں بلاناچاہا، یحی بن ہرثمہ کابیان ہے کہ میں حکم متوکل پاکرامام علیہ السلام کولانے کے لیے بہ ارادہ مدینہ منورہ روانہ ہوگیا میرے ہمراہ تین سوکالشکرتھا اوراس میں ایک کاتب بھی تھاجوامامیہ مذہب رکھتاتھا ہم لوگ اپنے راستہ پر جارہے تھے اوراس سعی میں تھے کہ کسی طرح جلدسے جلدمدینہ پہنچ کرامام علیہ السلام کولے آئیں اورمتوکل کے سامنے پیش کریں ہمارے ہمراہ جوایک شیعہ کاتب تھا اس سے ایک لشکرکے افسرسے راستہ بھرمذہبی مناظرہ ہوتارہا۔
یہاں تک کہ ہم لوگ ایک عظیم الشان وادی میں پہنچے جس کے اردگرد میلوں کوئی آبادی نہ تھی اوروہ ایسی جگہ تھی جہاں سے انسان کامشکل سے گزرہوتاتھا بالکل جنگل اوربے آب وگیاہ صحراتھا جب ہمارے لشکروہاں پہنچاتواس افسرنے جس کانام ”شادی“ تھا، اورجوکاتب سے مناظرہ کرتاچلاآرہاتھا کہنے لگااے کاتب تمہارے امام حضرت علی کایہ قول ہے کہ دنیاکی کوئی ایسی وادی نہ ہوگی جس میں قبرنہ ہویاعنقریب قبرنہ بن جائے کاتب نے کہا بے شک ہمارے امام علیہ السلام غالب کل غالب کایہی ارشادہے اس نے کہابتاؤاس زمین پرکس کی قبرہے یاکس کی قبربن سکتی ہے تمہارے امام یونہی کہہ دیاکرتے ہیں ابن ہرثمہ کاکہنا ہے کہ میں چونکہ حشوی خیال کاتھا لہذاجب یہ باتیں ہم نے سنیں توہم سب ہنس پڑے اورکاتب شرمندہ ہوگیاغرض کہ لشکربڑھتارہااوراسی دن مدینہ پہنچ گیا واردمدینہ ہونے کے بعد میں نے متوکل کاخط امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا امام علیہ السلام نے اسے ملاحظہ فرماکرلشکرپرنظرڈالی اورسمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالاہے آپ نے فرمایااے ابن ہرثمہ چلنے کوتیارہوں لیکن ایک دوروزکی مہلت ضروری ہے میں نے عرض کی حضور”خوشی سے“ جب حکم فرمائیں میں حاضرہوجاؤں اورروانگی ہوجائے ۔
ابن ہرثمہ کابیان ہے کہ امام علیہ السلام نے میرے سامنے ملازمین سے کہاکہ درزی بلا دو اوراس سے کہوکہ مجھے سامرہ جاناہے لہذا راستے کے لیے گرم کپڑے اورگرم ٹوپیاں جلد سے جلد تیار کر دے میں وہاں سے رخصت ہوکر اپنے قیام گاہ پرپہنچا اور راستے بھریہ سوچتار ہاکہ امامیہ کیسے بیوقوف ہیں کہ ایک شخص کو امام مانتے ہیں جسے (معاذاللہ) یہ تک تمیز نہیں ہے کہ یہ گرمی کازمانہ ہے یا جاڑے کا، اتنی شدید گرمی میں جاڑے کے کپڑے سلوا رہے ہیں اور اسے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں الغرض میں دوسرے دن ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ جاڑے کے بہت سے کپڑے سلے ہوئے رکھے ہیں اور آپ سامان سفر درست فرمار ہے ہیں اور اپنے ملازمین سے کہتے جاتے ہیں دیکھو کلاہ بارانی اور برساتی وغیرہ رہنے نہ پائے سب ساتھ میں باندھ دو، اس کے بعد مجھے کہا اے یحی بن ہرثمہ جاؤ تم بھی اپنا سامان درست کرو تا کہ مناسب وقت میں روانگی ہوجائے میں وہاں سے نہایت بددل واپس آیا دل میں سوچتا تھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ اس شدید گرمی کے زمانہ میں سردی اور برسات کاسامان ہمراہ لے رہے ہیں اورمجھے بھی حکم دیتے ہیں کہ تم بھی اس قسم کے سامان ہمراہ لے لو۔
مختصر یہ کہ سامان سفر درست ہوگیا اورر وانگی ہوگئی میرا لشکر امام علیہ السلام کوگھیرے میں لیے ہوئے جارہا تھا کہ ناگاہ اسی وادی میں جاپہنچے، جس کے متعلق کاتب امامیہ اور افسرشادی میں یہ گفتگوہوئی تھی کہ یہاں پرکس کی قبر ہے یا ہو گی اس وادی میں پہنچنا تھا کہ قیامت آگئی، بادل گرجنے لگے، بجلی چمکنے لگی اور دوپہر کے وقت اس قدر تاریکی چھائی کہ ایک دوسرے کودیکھ نہ سکتاتھا ، یہاں تک کہ بارش ہوئی اورایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ عمر بھرنہ دیکھی تھی امام علیہ السلام نے آثار پیدا ہوتے ہی ملازمین کوحکم دیا کہ برساتی اور بارانی ٹوپیاں پہن لو اورایک برساتی یحی بن ہرثمہ اور ایک کاتب کو دیدو غرض کہ خوب بارش ہوئی اورہوا اتنی ٹھنڈی چلی کہ جان کے لالے پڑگئے جب بارش تھمی اور بادل چھٹے تو میں نے دیکھاکہ ۸۰/ افراد میری فوج کے ہلاک ہوگئے ہیں ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے یحی بن ہرثمہ اپنے مردوں کودفن کردو اوریہ جان لو کہ ”خدائے تعالی ہم چنین پرمی گرواندبقاع راازقبور“ اس طرح خداوند عالم نے ہربقعہ ارض کو قبروں سے پر کرتاہے اسی لیے میرے جدنامدار حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ زمین کا کوئی ٹکڑا ایسانہ ہوگا جس میں قبرنہ بنی ہو
”یہ سن کرمیں اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور امام علیہ السلام کے قریب جاکر پابوس ہوا، اوران کی خدمت میں عرض کی مولا میں آج آپ کے سامنے مسلمان ہوتاہوں، یہ کہہ کرمیں نے اس طرح کلمہ پڑھا ”اشہدان لاالہ الااللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وانکم خلفاء اللہ فی ارضہ “ اوریقین کرلیا کہ یہی حضرت خدا کی زمین پر خلیفہ ہیں اور دل میں سوچنے لگا کہ اگر امام علیہ السلام نے جاڑے اور برسات کاسامان نہ لیا ہوتا اوراگر مجھے نہ دیا ہوتا تو میرا کیاحشر ہوتا پھر وہاں سے روانہ ہوکر ”عسکر“ پہنچا اورآپ کی امامت کا قائل رہ کرزندہ رہا اورتاحیات آپ کے جدنامدار کا کلمہ پڑھتارہا (کشف الغمہ ص ۱۲۴) ۔
علامہ جامی اورعلامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ دوسوسے زائدافرادآپ کے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے سامرہ پہنچے وہاں آپ کے قیام کا کوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا اورحکم تھا متوکل کاکہ انہیں فقیروں کے ٹہرانے کی جگہ اتارا جائے چنانچہ آپ کوخان الصعالیک میں اتارگیا وہ جگہ بدترین تھی وہاں شرفاء نہیں جایاکرتے تھے ایک دن صالح بن سعیدنامی ایک شخص جوآپ کے ماننے والے تھے آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہنے لگے مولایہ لوگ آب کی قدر و منزلت پر پردہ ڈالنے اور نور خداکو چھپانے کی کس قدرکوشش کرتے ہیں کجاحضورکی ذات اقدس اورکجایہ قیام گاہ حضرت نے فرمایاائے صالح تم دل تنگ نہ ہو۔میں اس کی عزت افزائی کاخواہاں اوران کی کرم گستری کاجویاں نہیں ہوں خداوندعالم نے آل محمدکوجودرجہ دیاہے اورجومقام عطافرمایاہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا اے صالح بن سعید میں تمہیں خوش کرنے کے لیے بتاناچاہتاہوں کہ تم مجھے اس مقام پردیکھ کرپریشان نہ ہوخداوندعالم نے یہاں بھی میرے لیے بہشت جیسا بندوبست فرمایاہے یہ کہہ کرآپ نے انگلی سے اشارہ کیااورصالح کی نظرمیں بہترین باغ بہترین قصوراوربہترین نہریں وغیرہ نظرآنے لگیں صالح کابیان ہے کہ یہ دیکھ کرمجھے قدرے تسلی ہوگئی (شواہدالنبوت ص ۲۰۸ ، نورالابصارص ۱۵۰) ۔
امام علی نقی علیہ السلام کی نظربندی
امام علی نقی علیہ السلام کودھوکہ سے بلانے کے بعدپہلے توخان الصعالیک میں پھر اس کے بعد ایک دوسرے مقام میں آپ کونظربندکردیا اورتاحیات اسی میں قیدرکھا امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ متوکل آپ کے ساتھ ظاہرداری ضرورکرتاتھا، لیکن آپ کاسخت دشمن تھا اس نے حیلہ سازی اوردھوکہ بازی سے آپ کوبلایا اوردر پردہ ستانے اورتباہ کرنے اورمصیبتوں میں مبتلاکرنے کے درپے رہا (نورالابصار ص ۱۵۰) ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ متوکل نے آپ کوجبرا بلاکرسامرہ میں نظربندکردیا اورتازندگی باہرنہ نکلنے دیا (صواعق محرقہ ص ۱۲۴) ۔
امام علی نقی کی حالت سامرہ پہنچنے کے بعد
متوکل کی نیت خراب تھی ہی امام علیہ السلام کے سامرہ پہنچنے کے بعداس نے اپنی نیت کامظاہرعمل سے شروع کیا اورآپ کے ساتھ نامناسب طریقہ سے دل کابخارنکالنے کی طرف متوجہ ہوا لیکن اللہ جس کی لاٹھی میں آوازنہیں اس نے اسے کیفرکردارتک پہنچا دیا مگر اس کی زندگی میں بھی ایسے آثار اور اثرات ظاہر کئے جس سے وہ یہ بھی جان لے کہ وہ جوکچھ کرر ہا تھا خداوند اسے پسند نہیں کرتا مورخ اعظم لکھتے ہیں کہ متوکل کے زمانے میں بڑی آفتیں نازل ہوئیں بہت سے علاقوں میں زلزلے آئے زمینیں دھنس گئیں آگیں لگیں، آسمان سے ہولناک آوازیں سنائی دیں، بادسموم سے بہت سے جانوراورآدمی ہلاک ہوئے ، آسمان سے مثل ٹڈی کے کثرت سے ستارے ٹوٹے دس دس رطل کے پتھرآسمان سے برسے، رمضان ۲۴۳ ہجری میں حلب میں ایک پرندہ کوے سے بڑاآکربیٹھا اوریہ شورمچایا ”یاایہاالناس اتقواللہ اللہ اللہ “ چالیس دفعہ یہ آوازلگاکر اڑگیا دودن ایساہی ہوا (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۵) ۔
حضرت امام علی نقی اور سواری کی برق رفتاری
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے مدینہ سے سامرہ تشریف لے جانے کے بعد ایک دن ابوہاشم نے کہا مولامیرا دل نہیں مانتا کہ میں ایک دن بھی آپ کی زیارت سے محروم رہوں ، بلکہ جی چاہتاہے کہ ہرروز آپ کی خدمت میں حاضرہواکروں حضرت نے پوچھا اس کے لیے تمہیں کونسی رکاوٹ ہے انہوں نے عرض کی میراقیام بغدادہے اورمیری سواری کمزورہے حضرت نے فرمایا”جاو“ اب تمہاری سواری کاجانور طاقتورہوجائے گا اوراس کی رفتاربہت تیزہوجائے گی ابوہاشم کابیان ہے کہ حضرت کے اس ارشادکے بعدسے ایساہوگیاکہ میں روزانہ نمازصبح بغدادمیں نمازظہرسامرہ عسکرمیں اورنمازمغرب بغدادمیں پڑھنے لگا (اعلام الوری ص ۲۰۸) ۔
آپ کا احترام جانوروں کی نظر میں
علامہ موصوف یہ بھی لکھتے ہیں کہ متوکل کے مکان میں بہت سی بطخیں پلی ہوئی تھیں جب کوئی وہاں جاتا تو وہ اتنا شور مچایا کرتی تھیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی لیکن جب امام علیہ السلام تشریف لے جاتے تھے تو وہ سب خاموش ہوجاتی تھیں اورجب تک آپ وہاں تشریف رکھتے تھے وہ چپ رہتی تھیں (شواہدالنبوت)۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور خواب کی عملی تعبیر
احمد بن عیسی الکاتب کابیان ہے کہ میں نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرماہیں اورمیں ان کی خدمت میں حاضرہوں، حضرت نے میری طرف نظراٹھاکردیکھا اوراپنے دست مبارک سے ایک مٹھی خرمہ اس طشت سے عطا فرمایا جوآپ کے سامنے رکھا ہوا تھا میں نے انہیں گنا تووہ پچس تھے اس خواب کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ مجھے معلوم ہواکہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام سامرہ سے تشریف لائے ہیں میں ان کی زیارت کے لیے حاضرہوا تومیں نے دیکھا کہ ان کے سامنے ایک طشت رکھا ہے جس میں خرمے ہیں میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو سلام کیا حضرت نے جواب سلام دینے کے بعد ایک مٹھی خرمہ مجھے عطافرمایا ، میں نے ان خرموں کوشمار کیا تو وہ پچیس تھے میں نے عرض کی مولا کیا کچھ خرمہ اور مل سکتاہے جواب میں فرمایا! اگر خواب میں تمہیں رسول خدانے اس سے زیادہ دیا ہوتا تو میں بھی اضافہ کردیتا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔
اسی قسم کا واقعہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام کے لیے بھی گزراہے۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور فقہائے مسلمین
یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ آل محمدوہ ہیں جن کے گھرمیں قرآن مجیدنازل ہوا ان سے بہترنہ قرآن کاسمجھنے والاہے، نہ اس کی تفسیرجاننے والا، علماء کابیان ہے کہ جب متوکل کوزہردیاگیا تواس نے یہ نذرمانی کہ ”اگرمیں اچھاہوگیاتوراہ خدامیں مال کثیردوں گا“ پھرصحت پانے کے بعد اس نے اپنے علماء اسلام کو جمع کیا اور ان سے واقعہ بیان کرکے مال کثیرکی تفصیل معلوم کرناچاہی اس کے جواب میں ہرایک نے علیحدہ علیحدہ بیان دیا ایک فقیہ نے کہا مال کثیرسے ایک ہزار درہم دوسرے فقیہ نے کہا دس ہزار درہم ،تیسرے نے کہا ایک لاکھ درہم مراد لینا چاہئے متوکل ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ ایک دربان سامنے آیا جس کانام ”حسن“ تھا عرض کرنے لگا کہ حضور اگرمجھے حکم ہوا تومیں اس کاصحیح جواب لادوں متوکل نے کہا بہتر ہے جواب لاو اگر تم صحیح جواب لائے تو دس ہزار درہم تم کو انعام دوں گا اور اگر تسلی بخش جواب نہ لاسکے تو سوکوڑے ماروں گا اس نے کہا مجھے منظورہے اس کے بعد دربان حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں گیا امام علیہ السلام جو نظر بندی کی زندگی بسر کرر ہے تھے دربان کو دیکھ کر بولے اچھا مال کثیر کی تفصیل پوچھنے آیاہے جا اور متوکل سے کہہ دے مال کثیر سے اسی درہم مراد ہے دربان نے متوکل سے یہی کہہ دیا متوکل نے کہا جاکر دلیل معلوم کر ،وہ واپس آیا حضرت نے فرمایا کہ قرآن مجید میں آنحضرت علیہ السلام کے لیے آیا ہے ہ ”لقدنصرکم اللہ فی مواطن کثیرة“ اے رسول اللہ نے تمہاری مدد مواطن کثیرہ یعنی بہت سے مقامات پر کی ہے جب ہم نے ان مقامات کاشمارکیا جن میں خدانے آپ کی مدد فرمائی ہے تو وہ حساب سے اسی ہوتے ہیں معلوم ہواکہ لفظ کثیر کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے یہ سن کر متوکل خوش ہوگیا اور اس نے اسی درہم صدقہ نکال کر دس ہزاردرہم دربان کوانعام دیا (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۶) ۔
امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت
متوکل کے بعد اس کا بیٹا مستنصر پھر مستعین پھر ۲۵۲ ہجری میں معتزباللہ خلیفہ ہوا معتز ابن متوکل نے بھی اپنے باپ کی سنت کونہیں چھوڑا اور حضرت کے ساتھ سختی ہی کرتا رہا یہاں تک کہ اسی نے آپ کوزہر دیدیا ۔
”سمعہ المعتز، انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۵۵ ،اورآپ بتاریخ ۳/ رجب ۲۵۴ ہجری یوم دوشنبہ انتقال فرماگئے (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۹) ۔
علامہ ابن جوزی تذکرة خواص الامة میں لکھتے ہیں کہ آپ معتزباللہ کے زمانہ خلافت میں شہید کئے گئے ہیں اور آپ کی شہادت زہرسے واقع ہوئی ہے، علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کوزہرسے شہیدکیاگیاہے (انوارالابصارص ۱۵۰) ۔
علامہ ابن حجرلکھتے ہیں کہ آپ زہر سے شہیدہوئے ہیں ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۸ میں ہے کہ آپ نے انتقال سے قبل امام حسن عسکری علیہ السلام کو مواریث انبیاء وغیرہ سپرد فرمائے تھے وفات کے بعد جب امام حسن عسکری علیہ السلام نے گریبان چاک کیاتولوگ معترض ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ سنت انبیاء ہے حضرت موسی نے وفات حضرت ہارون پر اپنا گریبان پھاڑاتھا (دمعہ ساکبہ ص ۱۴۸ ، جلاء العیون ص ۲۹۴) ۔
آپ پر امام حسن عسکری نے نمازپڑھی اور آپ سامرہ ہی میں دفن کئے گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ، علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کے پاس کوئی بھی
نہ تھا (جلاء العیون ص ۲۹۲) ۔
مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری