امت مسلمہ کو اپنا وقار قائم کرنے کے لیے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے طرز زندگی سےاستفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔امیر المومنینؑ نے سازشی گروہوں کو اسلام کے زیریں اصولوں سے شکست دی۔
حضرت علی علیہ السلام نے عدل کے اصولوں پر سختی سے عمل کر کے طبقاتی تفریق اور دوہرے معیار کے وجود کا خاتمہ کیا آپ کی اس انفرادیت نے ان لوگوں کو آپ کا دشمن بنا دیا جو انصاف پسندی کی بجائے موقع شناسی سے کام لیتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی کو سیرت رسول کا عملی نمونہ بنا کر پیش کیا۔آج امت مسلمہ کے زوال کی بنیادی وجہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف اور اپنے اسلاف کے طرز عمل سے دوری ہے۔آج کے مسلمان حکمران اصول پسندی کی بجائے مصلحت پسندی کے قائل ہیں یہ وجہ ہے کہ عالمی ایشوز پر جراتمندانہ موقف پیش کرنے کی بجائے بزدلانہ انداز اختیار کر کے قومی وقار کو ہمیشہ نقصان پہنچانے لگے ۔
حیدر کرار ّ کی جرات و بہادری کا یہ حال تھا کہ انہیں میدان جنگ میں کبھی زیر نہیں کیا جا سکا۔ سازشیوں نے اپنے آلہ کار کے ذریعے مولا کائنات پر اس وقت وار کیا جب وہ حالت نماز میں تھے۔امت مسلمہ آج بھی انہی سازشوں کا شکار ہے جس کا بروقت درک نہ کیا تو عالم اسلام سنگین نقصانات سے دوچار ہو گا۔
اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا وقار قائم ہو تو ہمیں چاہیے کہ ہم صرف زبان سے ان کی محبت کا دعویٰ نہ کریں بلکہ عملی میدان میں آگے آکر اپنی محبت و الفت کا ثبوت پیش کریں، امیر المومنین علیہ السلام کی پوری حیاتِ طیبہ روزِ روشن کی طرح آشکار ہے کہ وہ اتنے عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود بھی حلال روزی کمانے کے لئے یہودی کے باغ میں مزدوری کیا کرتے تھے، کیا انہے یہ کام انجام دینے کی ضرورت تھی؟؟؟ نہیں!!! بلکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے معصومین کمال کے عظیم درجہ پر فائز ہے انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں اگر وہ چاہیں تو ریت سونے میں تبدیل ہو جاے، اگر وہ چاہیں تو ہاتھ کا دھوون قیمتی جواہرات میں تبدیل ہو جاے.
معصومين علیہم السلام نے اس دنیا میں ظاہری زیدگی بسر کرنے کے لئے جو محنت و مزدوری کی وہ صرف اس لیے کہ امت کبھی بھی حلال رزق حاصل کرنے میں شرم محسوس نہ کرے چاہے مزدوری ہی کیوں نہ کرنی پڑے.
حضرت علی علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ سے ہمیں بہترین نظامِ حیات ملتا ہے امام نے اپنے چاہنے والوں کو درس دیا کہ اگر زمانہ تمہارا مخالف ہو جائے تو بھی تمہیں اللہ پر توکل رکھنا ہے اور اگر دنیاوی خلافت بھی تمہارے پاس آجاے تو بھی اللہ سے درتے رہنا اور ایسا نظام قائم کرنا کہ تمہاری حکومت میں کوئی بھی پریشان نہ ہوں، ہمیشہ عدل سے کام لینا، غریبوں، مسکینوں، یتیموں کا خاص خیال رکھنا. آئیے خضرت علی علیہ السلام کی حکومتِ ظاہری پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
حضرت علی علیہ السلام کی ظاہری خلافت
رسول اللہ (ص) کے بعدحضرت علی علیہ السّلام نے پچیس برس خانہ نشینی میں بسر کئے۔ جب سن ۳۵ ھجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلےتو آپ نے انکار کر دیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکرلیا کہ میں قران اور سنت ُ پیغمبر(ص) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کر لیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص دینی حکومت کو برداشت نہ کرسکا، لہذا بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ، جنھیں آپ کی دینی حکومت کی وجہ سے آپنے اقتدار کے ختم ہوجانے کا خطرہمحسوس ہو گیا تھا، وہ آپ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا،جس کے نتیجے میں جمل، صفین، اور نہروان کی جنگیں ہوئیں . ان جنگوں میں حضرت علی بن ابی طالب علیہما السّلام نے اس شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر، احد، خندق، وخیبرمیں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان جنگوں کی وجہ سے آپ کو اتنا موقع نہ مل سکا کہ آپ اس طرح اصلاح فرماتے جیساکہ آپ کا دل چاہتا تھا . پھر بھی آپ نے اس مختصرسی مدّت میں، سادہ اسلامی زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے۔ آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور آپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے . جو مال بیت المال میں اتا تھا اسے تمام حقداروں کے درمیان برابر تقسیم کردیتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نےجب یہ چاہا کہ انہیں، دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے،تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ممکن تھا، مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے ، لہذا مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے اپنے کسی عزیز کو دوسروں سے زیادہ حصہ دوں۔ انتہا یہ ہے کہ اگرآپ کبھی رات کے وقت بیت المال میں حساب وکتاب میں مصروف ہوتے اور کوئی ملاقات کے لیے آجاتا اور غیر متعلق باتیں کرنے لگتا تو آپ چراغ کو بھجادیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہئے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں ائے وہ جلد سے جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کو جمع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
امام علی علیہ السلام کی زندگی کا ایک گوشہ
امام علی علیہ السلام کی خلافت کا دائرہ بہت وسیع اور عریض ہونے کے باوجود ہمیں آپ کی سیرت میں ملتا ہےکہ آپ کے ہاں رات کو بچھانے کےلئے بھیڑ کی ایک کھال تھی کہ اس میں آپ آرام فرماتے تھے اور کبھی آپ نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا؛ انیسویں رمضان المبارک کی رات، آپ اپنی بیٹی ام كلثوم علیھا السلام کے ہاں مہمان تھے، ام کلثوم (س) ایک گلاس دودھ اور تھوڑا سا نمک لے کر آئیں تاکہ آپ (ع) اس سے افطار فرما لیں؛ آپ نے دسترخوان پر نظر ڈالی اور فرمایا: میری بیٹی، آپ نے مجھے دو کھانے کھاتے ہوئے کب دیکھا ہے؟ آپ نے حکم دیا کہ ان دونوں کھانوں میں سے ایک کو اٹھا لو، اس کے بعد آپ نے جو کی تھوڑی سی روٹی، نمک کے ساتھ تناول فرمائی۔
حقیقت میں اسلام کے حکمران ایسے ہی ہوتے ہیں۔
